تے منزل مقصود نہ پُہتا باجھ ادب تِھیں کوئی عارفِ کھّڑی شریف میاں محمّد بخش رحمتہ الله علیہ
خاموش اے دل بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے کے قرینوں میں علامہ محمّد اقبال رحمتہ الله علیہ
قرآن مجید اور مقدس اوراق کی تعظیم
اولیاء اکرام کا طریقہ ادب اگر ١٠٠ اونٹ قطار باندھے جا رہیں ہو اور آخری اونٹ پر قرآن مجید رکھا ہوا ہو تو ولی بغیر وضو کے پہلے اونٹ کی رسی نہیں پکڑے گا
جب قرآن کریم پرانا ہو جائے اور پڑھا نہ جائے اور ضائع ہونے کا ڈر ہو تو اسے پاکیزہ کپڑے میں باندھ کر دفن کر دیا جائے اور دفن کرنا اس سے بہتر ہے کہ کسی ایسی جگہ رکھدیا جائے جہاں اس پر نجاست وغیرہ پڑھنے کا ڈر ہو اور دفنانے کے لئے لحد کھودے کیونکہ اگر سیدھا گڑھا کھودا اور اس میں بوسیدہ قرآن دفن کردیا تو اوپر مٹی ڈالنے کی ضرورت پڑے گی اور اس میں ایک طرح کی بے ادبی ہے۔ ہاں اگر اوپر چھت ڈال دے کہ قرآن کریم تک مٹی نہ پہنچے تو یہ بھی اچھا ہے۔ قرآن کریم جب بوسیدہ ہو جائے اور اس سے قرات مشکل ہو جائے آگ میں نہ جلایا جائے۔ فتاویٰ عالمگيری ، ۵:۳2۳ طبع ترکی
قرآن مجید اور مقدس اوراق کو پانی میں گرانا : پہلے کچی سیاہی ہوا کرتی تھی جو کہ پانی میں اوراق ڈالنے سے اتر جاتی تھی لیکن اب ورقه تو پھٹ جاتا ہے لیکن سیاہی کا نشان تک نہیں جاتا جس کا مشاہدہ ہو رہا ہے اوراق نہروں سے دریاؤں اور دریاؤں سے سمندر تک کا سفر کر کے بھی ویسے ہی رہتے ہیں کہیں سمندر کنارے ان کی بے ادبی اور کہیں کھیتوں میں یعنی نہروں سے جو کھالے آبپاشی کے لیے بنے ہوتے ہیں ان کے زریعے کھیتوں میں
قرآن مجید کو ہمیشہ کی بے ادبی سے بچانے کے لیے قرآن محل شریف بناے گئے ہیں
قرآن مجید کو جلانا یعنی شہید کرنا ہمیشہ کی بے ادبی سے اس میں نیت مقدم ہے آگ پاک کرنے والی چیزوں میں سے ہے پانی ناپاک ہو سکتا ہے لیکن آگ نہیں
اس سارے عمل میں نیت مقدم ہے جب نیت محفوظ کرنے کی ہو تو دفن کیا جائے یا شہید کیا جائے اگر نیت بے ادبی کی ہو اور مقدس اوراق وغیرہ کو پانی میں گرایا جائے تو وہی گناہ ہے
حَدَّثَنَا مُوسَى، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، حَدَّثَهُ: أَنَّ حُذَيْفَةَ بْنَ اليَمَانِ، قَدِمَ عَلَى عُثْمَانَ وَكَانَ يُغَازِي أَهْلَ الشَّأْمِ فِي فَتْحِ أَرْمِينِيَةَ، وَأَذْرَبِيجَانَ مَعَ أَهْلِ العِرَاقِ، فَأَفْزَعَ حُذَيْفَةَ اخْتِلاَفُهُمْ فِي القِرَاءَةِ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ لِعُثْمَانَ: يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، أَدْرِكْ هَذِهِ الأُمَّةَ، قَبْلَ أَنْ يَخْتَلِفُوا فِي الكِتَابِ اخْتِلاَفَ اليَهُودِ وَالنَّصَارَى، فَأَرْسَلَ عُثْمَانُ إِلَى حَفْصَةَ: «أَنْ أَرْسِلِي إِلَيْنَا بِالصُّحُفِ نَنْسَخُهَا فِي المَصَاحِفِ، ثُمَّ نَرُدُّهَا إِلَيْكِ» ، فَأَرْسَلَتْ بِهَا حَفْصَةُ إِلَى عُثْمَانَ، فَأَمَرَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ، وَسَعِيدَ بْنَ العَاصِ، وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ فَنَسَخُوهَا فِي المَصَاحِفِ "، وَقَالَ عُثْمَانُ لِلرَّهْطِ القُرَشِيِّينَ الثَّلاَثَةِ: «إِذَا اخْتَلَفْتُمْ أَنْتُمْ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ فِي شَيْءٍ مِنَ القُرْآنِ فَاكْتُبُوهُ بِلِسَانِ قُرَيْشٍ، فَإِنَّمَا نَزَلَ بِلِسَانِهِمْ» فَفَعَلُوا حَتَّى إِذَا نَسَخُوا الصُّحُفَ فِي المَصَاحِفِ، رَدَّ عُثْمَانُ الصُّحُفَ إِلَى حَفْصَةَ، وَأَرْسَلَ إِلَى كُلِّ أُفُقٍ بِمُصْحَفٍ مِمَّا نَسَخُوا، وَأَمَرَ بِمَا سِوَاهُ مِنَ القُرْآنِ فِي كُلِّ صَحِيفَةٍ أَوْ مُصْحَفٍ، أَنْ يُحْرَقَ [صحيح البخاري 6/ 183 رقم 4987 ] صحابی رسول انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حزیفہ بن الیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچے اس وقت وہ اہل شام و عراق کو ملا کر فتح آرمینۃ و آذربائیجان میں جنگ کر رہے تھے قرآت میں اہل عراق و شام کے اختلاف نے حضرت خزیفہ کو بے چین کردیا چنانچہ حضرت حزیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ اے امیرالمومنین! اس امت کی خبر لیجئے قبل اس کے کہ وہ یہود و نصاریٰ کی طرح کتاب میں اختلاف کرنے لگیں عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حفصہ رضی اللہ عنہا کو کہلا بھیجا کہ تم وہ صحیفے میرے پاس بھیج دو ہم اس کے چند صحیفوں میں نقل کرا کر پھر تمہیں واپس کردیں گے حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ صحیفے عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھیج دیئے عثمان رضی اللہ عنہ نے زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سعید بن عاص، عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام کو حکم دیا تو ان لوگوں نے اس کو مصاحف میں نقل کیا اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان تینوں قریشیوں سے کہا کہ جب تم میں اور زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں کہیں (قرآت) قرآن میں اختلاف ہو تو اس کو قریش کی زبان میں لکھو اس لئے کہ قرآن انہیں کی زبان میں نازل ہوا ہے چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ جب ان صحیفوں کو مصاحف میں نقل کرلیا گیا تو عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ صحیفے حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھجوا دیئے اور نقل شدہ مصاحف میں سے ایک ایک تمام علاقوں میں بھیج دیئے اور حکم دے دیا کہ اس کے سوائے جو قرآن صحیفہ یا مصاحف میں ہے جلا دیا جائے ۔
حدیث میں ہے کہ جب حضرت عثمانؓ نےقرآن کریم کی مختلف نقول تیارکرلیں تو جو مصاحف ان نقول کےمطابق نہیں تھے انہیں جلا دیا گیا۔ صحیح بخاری ،فضائل القرآن :۴۹۸۷
حضرت علیؓ کےپاس چند لوگوں نےحضرت عثما نؓ کے اس اقدام کو جب جذباتی انداز میں پیش کیا تو آپ نے فرمایا:‘‘مصاحف کےجلانے کے متعلق حضرت عثمان ؓ کےلئے کلمہ خیر ہی کہو۔ انہوں نے یہ کام کرکےکوئی برااقدام نہیں اٹھایا۔’’ فتح الباری ،ص:۱۲،ج ۹